Matthew 7 Urdu
From Textus Receptus
Erasmus (Talk | contribs)
(New page: <big><div style="text-align: right;"><span style="font-family:Jameel Noori Nastaleeq;"> ۱ عیب جوئی نہ کرو کہ تُمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے۔ ...)
Next diff →
Revision as of 07:11, 12 March 2016
۱
عیب جوئی نہ کرو کہ تُمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے۔
۲
کیونکہ جِس طرح تُم عیب جوئی کرتے ہو اُسی طرح تُمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی۔ اور جِس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تُمہارے واسطے ناپا جائے گا۔
۳
تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تِنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتِیر پر غور نہیں کرتا؟
۴
اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتِیر ہے تو تُو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تِنکا نِکال دُوں؟
۵
اے رِیاکار پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتِیر نِکال پھِر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تِنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نِکال سکیگا۔
۶
پاک چِیز کُتّوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اُن کو پاوَں کے تلے روندیں اور پلٹ کر تُم کو پھاڑیں۔
۷
مانگو تو تُم کو دِیا جائے گا۔ ڈھُونڈو تو پاوَ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاوَ تو تُمہارے واسطے کھولا جائے گا۔
۸
کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے مِلتا ہے اور جو ڈھُونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔
۹
تُم میں ایسا کونسا آدمی ہے کہ اگر اُس کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتھّر دے؟
۱۰
یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے؟
۱۱
پس جبکہ تُم بُرے ہوکر اپنے بچّوں کو اچھی چِیزیں دینا جانتے ہو تو کتنا زیادہ تُمہار باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھّی چیزیں کیوں نہ دے گا؟
۱۲
پس جو کُچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تُمہارے ساتھ کریں وُہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو کیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلِیم یِہی ہے۔
۱۳
تنگ دروازہ سے داخِل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کُشادہ ہے جو ہلاکت کو پُہنچاتا ہے اور اُس سے داخِل ہونے والے بہت ہیں۔
۱۴
کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سُکڑا ہے جو زندگی کو پُہنچاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔
۱۵
جھُوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تُمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑئے ہیں۔
۱۶
اُن کے پھلوں سے تُم اُن کو پہچان لوگے۔ کیا جھاڑیوں سے انگُور یا اُونٹ کٹاروں سے اِنجیر توڑتے ہیں؟
۱۷
اِسی طرح ہر ایک اچھّا درخت اچھّا پھل لاتا ہے۔
۱۸
اچھّا درخت بُرا پھل نہیں لاسکتا نہ بُرا درخت اچھّا پھل لاسکتا ہے۔
۱۹
جو درخت اچھّا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔
۲۰
پس اُن کے پھلوں سے تُم اُن کو پہچان لوگے۔
۲۱
جو مُجھ سے اے خُداوند اے خُداوند کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخِل نہ ہوگا مگر وُہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔
۲۲
اُس دِن بُہتیرے مُجھ سے کہیں گے اے خُداوند اے خُداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبُوّت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نِکالا اور تیرے نام سے بہت سے مُعجزے نہیں دِکھائے؟
۲۳
اُس وقت میں اُن سے صاف کہدُونگا کہ میری کبھی تُم سے واقفِیت نہ تھی اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاوَ۔
۲۴
پس جو کوئی میری یہ باتیں سُنتا اور اُن پر عمل کرتا ہے وہ اُس عقلمند آدمِی کی مانِند ٹھہریگا جِس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔
۲۵
اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلِیں اور اُس گھر پر ٹکرّیں لگِیں لیکن وہ نہ گِرا کیونکہ اُس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔
۲۶
اور جو کوئی میری یہ باتیں سُنتا اور اُن پر عمل نہیں کرتا وہ اُس بیوقُوف آدمِی کی مانِند ٹھہریگا جِس نے اپنا گھر ریت پر بنایا۔
۲۷
اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلِیں اور اُس گھر کو صدمہ پُہنچایا اور وہ گِر گیا اور بِالکل برباد ہوگیا۔
۲۸
جب یِسُوع نے یہ باتیں ختم کِیں تو ایسا ہُوا کہ بھِیڑ اُس کی تعلِیم سے حیران ہُوئی۔
۲۹
کیونکہ وہ اُن کے فقِیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اِختیار کی طرح اُن کو تعلِیم دیتا تھا۔